Monday 27 July 2020

لاک ڈاؤن کے انسانی زندگی پر اثرات | Lock Down


لاک ڈاؤن  کے انسانی زندگی پر اثرات
Lock Down
Lock Down
آج کا دور سائنس اور ٹیکنالوجی کا دور ہے۔ دُنیا میں کوئی بھی چھوٹی بڑی خبر پل بھرمیں دُنیا کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک پہنچ جاتی ہے۔ سَن دو ہزار اُنیس کے آخر میں سامنے آنے والی بیماری "کورونا" کی خبر چین سے نکل کر ساری دُنیا میں تیزی کے ساتھ پہنچی۔ جس تیزی کے ساتھ خبر پہنچی شاید اُس سے زیادہ تیزی کے ساتھ یہ بیماری دُنیا میں پھیلی۔  
شروع میں دُنیا نے اِس بیماری کو اِتنا خطرناک نہیں سمجھا جِتنی یہ تھی۔ جیسے جیسے یہ چِین سے باہر پھیلنا شروع ہوئی اور  مرنے والوں کی گِنتی بڑھی تب دُنیا نے اِس  کو اہمیت دینا شروع کی۔ لیکن تب تک کافی دیر ہو چُکی تھی۔ اِس کی روک تھام کے لیے چین سمیت ہر ملک نے اپنے طور پر قدم اُٹھائے۔ پہلے پہل دُنیا نے چین سے ہوائی سفر پر روک لگائی۔ جبکہ چین نے اپنے طور پر اِس کو روکنے کے بندوبست کیے۔
اِس بیماری کا کوئی علاج تو تھا نہیں، بس ایک بات جو ساری دُنیا کو سمجھ آئی وہ یہ تھی کہ آپسی میل جول کو کم سے کم کیا جائے۔  بس پھر کیا تھاساری دُنیا نے اِس پر کام شروع کر دیا۔  کسی مُلک میں کرفیو لگا کسی نے لاک ڈاؤن کیا۔ اِن دونوں میں سے لاک ڈاؤن کو زیادہ اچھا طریقہ مانا گیا۔  کسی نے پورا لاک ڈاؤن کیا کسی نے اِسے سمارٹ لاک ڈاؤن کہا۔ کہیں یہ لاک ڈاؤن چودہ دِنوں کا تھا تو کہیں اِس سے زیادہ دِنوں کا۔  یہ سلسلہ آج کی تاریخ تک چل رہا ہے۔ نیوزی لینڈ وہ پہلا مُلک ہے جِس نے لاک ڈاؤن پر اچھی طرح کام کیا آج اِس مُلک میں "کورونا" کا ایک بھی مریض نہیں ہے۔
وقت گُزر رہا ہے اور لاک ڈاؤن بھی چل رہا ہے۔ لیکن ایک بات جو شروع میں کسی نے نہیں سوچی تھی وہ سامنے آنے لگی۔ لوگوں کے میل جول سے ہی یہ دُنیا چل رہی ہے۔ جب لوگوں کو جہاں ہیں وہیں روک دیا گیا تو اس سےکام کاج رُک گیا۔ کام کاج کے رُکنے سے لوگوں کو پیسے کی کمی کا سامنا کرنا  پڑا۔ سب سے زیادہ غریب لوگ اِس  کا شکار ہوئے۔ یہ ایک بہت تکلیف کی بات تھی۔ لیکن امیر بھی اِس تکلیف سے بچ نہیں سکے، اور لوگ اب بھی اِس  تکلیف کا شکار ہیں۔
اب آتے ہیں اصل چیز پر کہ لاک ڈاؤن نے لوگوں کو کِس طرح پریشان کیا۔ لاک ڈاؤن سے ہر کام رُک گیا۔ سکول، کالج، آفس ۔۔۔۔۔ ہم کِسی ایک آدمی کو چُنتے ہیں اور اُسی پر بات کرتے ہیں۔ اپنے سمجھنے کے لیے ہم اُس کا نام "کبیر " رکھتے ہیں۔
کبیر باقی لوگوں کی طرح جلدی جلدی آفس سے نکلا، کیوں کہ سرکار نے صبح سے  لاک ڈاؤن کر دیا تھا۔ اب آفس پندرہ دِن کے بعد کُھلے گا۔  آفس سے گھر تک اُسے ایک گھنٹا لگتا تھا۔ لیکن آج ایسا نہیں ہونا تھا۔ بس سٹاپ پر پہنچا جہاں روز سے زیادہ  بِھیڑ تھی۔ جو بھی بس آتی بِھیڑ بھری آتی۔ اُسے بس سٹاپ پر ہی دو گھنٹے گُزر گئے۔  اِس بِیچ گھر سے بار بار  فون آتا کہ کہاں ہو، کب تک آؤ گے، کیسے آؤ گے؟ کبھی تو وہ آرام سے جواب دیتا اور کبھی گرمی سے۔  ایک بس میں اُسے اِتنی جگہ مِل گئی کہ  ایک پاؤں رکھ سکے۔ کبھی سوچتا کہ کُچھ رُک کر دوسری بس پکڑتا ،کبھی سوچتا اچھا ہی کیا پتا نہیں اگلی بس کب تک آتی ؟
تین گھنٹے بعد کبیر گھر پہنچ گیا۔ لیکن اُس کی مشکل ختم نہیں ہوئی تھی۔ گھر پہنتے ہی بیوی نے کہا  "آج تو بہت دیر کردی، لاک ڈاؤن سے دُکانیں بند ہو  جائیں گی، لِسٹ بنا دی ہے یہ سامان لے آؤ۔" کبیر صاحب جلدی جلدی پھر گھر سے نکلے اور بازار کو چل دِئیے۔ لاک ڈاؤن کی خبر اکیلے کبیر یا اُس کی بیوی کو تو نہیں مِلی تھی ساراشہر جانتا تھا۔ کبیر نے بازار میں اپنی طرح کے کئی کبیر دیکھے جو ہاتھ میں کاغذ پکڑے دُکانوں کے باہر کھڑے تھے۔ رات گئے کبیر کو سامان مِل ہی گیا۔
بیوی نے ایک ایک چیز لِسٹ کے حساب سے دیکھی۔ شُکر ہے سب کُچھ پورا تھا۔ کبیر نے کپڑے بدلے اور بیوی کو کھانا لگانے کا کہا۔ کھانا کھاتے ہوئے اُس نے بیوی سے پوچھا "کومل! بچوں کے سکول سے لاک ڈاؤن پر کوئی نوٹس آیا کیا؟" بیوی نے کہا کہ "آیا تو ہے اب صبح دیکھ لینا وہ مُنّے کے بیگ میں پڑا ہے۔"
آج کبیر ذرا دیر سے جاگا کیونکہ آفس تو جانا نہیں تھا۔ ناشتا کرنے کے بعد بچوں کے ساتھ کھیلنے لگا۔گھر میں کھانے پینے کا سامان تو تھا ہی،اگلے کئی  دِن اِسی طرح گُزر گئے۔ لاک ڈاؤن کے چودھویں دِن ٹی وی پر خبر سُنی کہ  بیماری کے پھیلنے کی وجہ سے لاک ڈاؤن ایک مہینے کے لیے بڑھا دیا گیا ہے۔ یہ خبر کبیر فیملی کے لیے بہت  بُری ثابت ہونے والی تھی۔ بجلی، پانی گیس کے بلز آ چُکے تھے، دُودھ والا بھی پیسوں کی پرچی تھما گیا تھا۔ مہینے کے آخری دِن چل رہے تھے۔ گھر میں جو پیسے پڑے تھے وہ ختم ہو چُکے تھے۔ 
کبیر نے ٹی وی آن کیا سارے چیلنز بس ایک ہی خبر دے رہے تھے کہ آج کورونا سے اِتنے لوگ بیمار ہو گئے، اِتنے مر گئے۔ بار بار ایک ہی طرح کی خبر سُن سُن کر اُس کی حالت خراب ہو رہی تھی۔ آخر اُس نے ٹی وی بند کر دیا۔ بچوں نے دوبارہ ٹی وی آن کیا اور کارٹون لگا لیے۔ کبیر نے غصّے میں اُنہیں ٹی وی بند کرنے کا کہا۔ کومل نے کبیر کو اِتنے غصّے میں پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا۔ اُس نے کبیر سے پوچھا کہ  "آج آپ اِتنا غصّہ کیوں کر رہے ہیں؟"  کبیر نے کہا  " غصّہ کیوں نہ کروں ! ایک طرف سارے پیسے ختم ہو گئے ہیں دوسرایہ بلز ، اِن کا میں کیا کروں؟" کومل نے کہا کہ "آفس فون کر کے سیلری  کا پتا کرو ۔" کبیر بولا "آفس فون کیا تھا، وہاں سے کوئی جواب نہیں آیا۔ اپنے کولیگ کو فون کر کے پوچھا کہ بھائی تنخواہ کا کیا بنا؟ اُس نے بتایا کہ 'اِس مہینے سیلری نہیں ملے گی۔"

Lock Down
Lock Down
کومل کو بھی یہ سُن کر پریشانی ہوئی  لیکن اُس نے کبیر کو تسلّی دیتے ہوئے کہا کہ "تھوڑے دِنوں تک سارا کُچھ تھیک ہو جائے گا۔" کبیر بولا "کیسے ٹھیک ہو جائے گا؟ ہمارے پاس دو دِن کا راشن پڑا ہے اور لاک ڈاؤن ابھی ایک مہینہ چلے گا۔ یہ بھی پتا نہیں  ایک مہینے سے بھی آگے چلا جائے۔ اِتنے دِن کیسے گُزاریں گے؟ موبائل کا بیلنس بھی ختم ہو گیا ہے۔" کبیر بولتا جا رہا تھا اور کومل سُنتی جا رہی تھی۔ بچے اپنے ماں باپ کی اِس  لڑائی کو دیکھ رہے تھے۔ کبیر نے بچوں کو جِھڑک کر دوسرے کمرے میں بھیج دیا۔
دِن گُزرتے گئے اور راشن ختم ہو گیا۔ اِ س سیلری پر کومل نے  بچوں کے کپڑے خریدنے کا سوچا تھا جو کہ اُسے نظر آرہا تھا کہ اِس بار نہیں ہو سکے گا۔ اِس بِیچ سرکار نے اعلان کیا کہ لاک ڈاؤن کے کی وجہ سے لوگوں کی راش سرکار کی طرف سے دیا جائے گا۔ یہ ایک اچھی خبر تھی۔ سرکاری راشن کے لیے کبیر نے پتا کی تو اُسے معلوم ہوا کہ یہ اُن لوگوں کو ملے گا جِن کا اپنا گھر نہیں ہے، جِن کی سیلری 15000 سے کم ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ راش کی یہ آس بھی جاتی رہی۔ اُس نے اپنے پڑوسیوں سے مدد مانگنے کا سوچا۔ اپنے ساتھ والے گھر والوں سے بات کی مگر اُسے یہی لگا کہ یہاں سارے کبیر ہی رہتے ہیں۔

No comments:

Post a Comment