Tuesday, 28 February 2023

Avian Influenza | ایویئن انفلوئنزا

ایویئن انفلوئنزا  (Avian Influenza)  کیا ہے؟

انفلوئنزا، جسے عام طور پر فلو(the flu) کہا جاتا ہے یہ ایک متعدی بیماری ہے جو وائرس کی وجہ سے ہوتی ہے ۔ اس بیماری میں  ناک، گلے اور پھیپھڑوں سمیت سانس کی نالی  متاثر کرتی ہے۔ انفلوئنزا وائرس کی بہت سی اقسام موجود ہیں۔ کچھ وائرس صرف انسانوں کو متاثر کرتے ہیں اورباقی صرف پرندوں، سور یا کتے کو متاثر کرتے ہیں۔ کچھ ایک سے زیادہ ممالیہ جانوروں کو متاثر کر سکتے ہیں۔ جسے کراس اسپیسز (cross-species)  کے نام سے جانا جاتا ہے۔ پرندوں میں اس بیماری کو ایویئن انفلوئنزا یا    برڈ فلو(bird flu)  کہا جاتا ہے۔

ایویئن انفلوئنزا    Avian Influenza تقریباً   ایک صدی سےموجود  ہے۔ یہ سب سے پہلے 1878  عیسوی میں فول پلیگ (fowlplague) کے طور منظر عام پر آئی۔تب اس کی وجہ  سے اٹلی میں مرغیوں میں بہت زیادہ اموات ہوئیں۔

ایویئن فلو کئی اقسام کے پرندوں میں سانس، معدے، تولیدی، یا اعصابی نظام (یا ان کے مجموعے) کو متاثر کر سکتا ہے۔ مرغیوں میں انفیکشن کی ابتدائی علامات بھوک میں کمی اور انڈوںکی پیداوار میں کمی ہے۔ ایویئن فلو کی علامات وسیع پیمانے پر ہلکی بیماری سے لے کر انتہائی متعدی بیماری تک سوفیصد اموات تک ہو سکتی ہیں۔ کچھ جنگلی پرندے اور آبی پرندے مثلاً بطخ اور گیز انفیکشن کی علامات ظاہر کیے بغیر وائرس کو لے جا سکتے ہیں۔ کبوتر انفیکشن کے خلاف مزاحمت رکھتے  ہیں۔ گھریلو مرغیاں انفلوئنزا کے انفیکشن کے لیے بہت حساس ہوتی ہیں جو آسانی سے دوسری مرغیوں میں پھیل سکتی ہیں اور بہت جلداسے وبائی مرض میں تبدیل ہو جاتی ہیں (خاص طور پر  مرغبانی کی صنعت  میں)۔

 ایویئن فلو پرندوں کے درمیان کیسے پھیلتا ہے؟

ایویئن انفلوئنزا بنیادی طور پر متاثرہ پرندوں اور صحت مند پرندوں کے درمیان براہ راست رابطے سے پھیلتا ہے۔ یہ اس وقت بھی پھیل سکتا ہے جب پرندے ایسے آلات یا مواد   بشمول پانی اور خوراک کے رابطے میں آتے ہیں جو متاثرہ پرندوں کی ناک یا منہ سے خارج ہونے والے فضلات یا رطوبتوں سے آلودہ ہوتے ہیں۔  انسانی حوالے سے پرندو ں میں اس کے پھیلاؤ کو دیکھا جائے تو انسان اپنے کپڑوں، بوٹوں یا گاڑی وغیرہ کے پہیوں پر وائرس لے جانے سے بھی بالواسطہ طور پر ایک کھیت یا فارم سے دوسرے کھیت یا فارم  تک بیماری پھیلانے کا سبب بن سکتے ہیں۔

جنگلی پرندے عام طور پر خود اس سے متاثر نہیں ہوتے لیکن  وائرس کی نقل و حمل کا سبب بنتے ہیں ۔ تاہم، کچھ نایاب حالات ایسے ہوئے ہیں جہاں جنگلی پرندوں کے غول بیمار ہو گئے یا جہاں ہجرت کرنے والے پرندوں نے اپنی پرواز کے راستوں کے ساتھ مقامی پولٹری فارمز  کو متاثر کیا۔

 کیا تمام ایویئن انفلوئنزا وائرس یکساں طور پر خطرناک ہیں؟

اس کا جواب نفی میں ہے۔ در اصل  ایویئن انفلوئنزا وائرس کو دو درجوں میں تقسیم کیا گیا ہے:

 ‌أ.       کم پیتھوجینک ایویئن انفلوئنزا وائرس (low pathogenic avian influenza viruses)

‌ب.   زیادہ پیتھوجینک ایویئن انفلوئنزا وائرس (high pathogenic avian influenza viruses)

کم پیتھوجینک ایویئن انفلوئنزا کا مطلب یہ ہے کہ یہ وائرس ہلکی بیماری کا سبب بنتا ہے جیسے پھٹے ہوئے پروںاور انڈے کی پیداوار میں کمی۔ہائی پیتھوجینک ایویئن انفلوئنزا  شدید بیماری کا سبب بنتا ہے اور یہ انتہائی متعدی ہے۔ ہائی پیتھوجینک ایویئن انفلوئنزا متاثرہ غول کےسو فیصد تک مرنے کا سبب بن سکتا ہے۔

ایویئن انفلوئنزا کی کیا وجہ ہے؟

انفلوئنزا اے (Influenza A)  وائرس ایویئن انفلوئنزا کا سبب بنتا ہے۔

کیا انفلوئنزا وائرس کی ایک سے زیادہ اقسام ہیں؟

جی ہاں انفلوئنزا وائرس کا تعلق آرتھومائکسوائرس (orthomyxoviruses)کے خاندان سے ہے جس میں چار قسم کے انفلوئنزا وائرس ہوتے ہیں: اے، بی، سی اور ڈی۔

صرف انفلوئنزا اے وائرس پرندوں میں فلو کا باعث بنتا ہے۔ انفلوئنزا اے وائرس دنیا بھر سے جنگلی اور گھریلو پرندوں میں پایا گیا ہے۔ زیادہ تر وائرس آبی پرندوں مثلاً، بطخ، گیز، گل، ٹرنز وغیرہ اور گھریلو پرندوں مثلاً، مرغیاں، ٹرکی، بطخ، گیز، تیتر اور بٹیر میں پائے گئے ہیں۔ ایویئن انفلوئنزا اے وائرس کی بہت سی الگ الگ اقسام یا ذیلی اقسام ہیں لیکن بطخوں اور دوسرے پرندوں میں زیادہ تر  ذیلی اقسام  بیماری کی علامات کا سبب نہیں بنتے۔

‌أ.       انفلوئنزا اے وائرس  انسانوں، سور ، کتے، گھوڑے، سیل، وہیل اور منک کو بھی متاثر کر سکتا ہے۔ نئے انفلوئنزا اے وائرس وبائی امراض کا سبب بن سکتے ہیں۔

‌ب.   انفلوئنزا بی وائرس عام طور پر صرف انسانوں میں پائے جاتے ہیں۔ انفلوئنزا ٹائپ بی وائرس انسانی وبا کا سبب بن سکتے ہیں لیکن وہ وبائی امراض کا سبب نہیں بنے ہیں۔

‌ج.      انفلوئنزا سی وائرس انسانوں میں ہلکی علامات کا باعث بنتے ہیں اور وبائی امراض یا وبائی امراض کا سبب نہیں بنتے۔ انفلوئنزا سی وائرس سوروں اور کتوں میں بھی پائے گئے ہیں۔

‌د.        انفلوئنزا ڈی وائرس مویشیوں کو متاثر کرتے ہیں اور انسانوں میں بیماری کا سبب نہیں جانتے ہیں۔

 H5N1 یا H7N9 وائرس سے کیا مراد ہے؟

انفلوئنزا اے وائرس کو ذیلی قسموں میں درجہ بندی کیا گیا ہے اور ہر ذیلی قسم کو مزید ذیلی قسم  میں تقسیم کیا گیا ہے۔

 H اور N حروف انفلوئنزا وائرس کی بیرونی سطح پر پائے جانے والے مختلف قسم کے پروٹینز کا حوالہ دیتے ہیں۔ انفلوئنزا اے وائرس کی مختلف ذیلی قسموں کا انحصار ان پروٹینوں کی قسموں پر ہوتا ہے جو وائرس کی سطح سے چپک جاتے ہیں – ہیماگلوٹینن(haemagglutinin) یا ایچ اے پروٹین(HA protein) اور نیورامینیڈیز  (neuraminidase)یا این اے پروٹین(NA protein)۔ جسم کا مدافعتی نظام اینٹی باڈیز (antibodies) بنا سکتا ہے جو ان مخصوص وائرس پروٹینز (antibodies) کو پہچان سکتا ہے اور اس وجہ سے اس مخصوص انفلوئنزا وائرس سے لڑ سکتا ہے۔

 محققین کو برڈ فلو وائرس میں 18 قسم کے HA پروٹین اور 11 NA پروٹین ملے ہیں۔ ان مجموعوں کو انفلوئنزا وائرس H(number) N(number)  کی ذیلی قسم  کے طور پر رپورٹ کیا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر:

H7N1

H9N2

H5N1

H7N9

   وغیرہ۔

 کیا  انسانوں کو ایویئن انفلوئنزا ہو سکتا ہے؟

ایویئن انفلوئنزا وائرس عام طور پر انسانوں کو متاثر نہیں کرتے ہیں۔ خیال کیا جاتا ہے کہ لوگوں میں انفیکشن کے زیادہ تر معاملات متاثرہ پولٹری یا آلودہ سطحوں سے براہ راست رابطے کا نتیجہ ہیں۔ دو نسب - H5N1 اور H7N9 - آج تک دنیا بھر میں زیادہ تر انسانی بیماریوں کے لیے ذمہ دار رہے ہیں۔ان تمام ایویئن انفلوئنزا وائرسز میں سے جو انسانوں میں بیماری کا باعث بنے ہیں، ذیلی قسم H5N1 بہت سنگین بیماریوں اور موت سے وابستہ ہے۔ اگرچہ اس وائرس سے انسانوں میں انفیکشن بہت کم ہوتے ہیں، لیکن جو لوگ اس سے متاثر ہوتے ہیں وہ شدید بیمار ہو سکتے ہیں اور ان کی موت ہو سکتی ہے۔

 ایویئن فلو انسانوں میں کیسے پھیلتا ہے؟

نایاب ہونے کے باوجود، انسانوں میں ایویئن انفلوئنزا بنیادی طور پر  درج ذیل جانداروں یا ان سے متعلق اشیاء کے ساتھ رابطے کی وجہ سے ہوتا ہے:

 ‌أ.       متاثرہ مرغیاں یا دوسرے پرندے

‌ب.   کھاد اور گندگی جس میں ایویئن انفلوئنزا وائرس کی زیادہ مقدار ہوتی ہے

‌ج.     آلودہ سطحیں

‌د.       آلودہ گاڑیاں، سامان، کپڑے اور جوتے فارموں میں جہاں متاثرہ پرندے ہیں

‌ه.        متاثرہ پرندے جب  پر نکلنےپر  فروخت کے لیے تیار ہوتے ہیں

یہ وائرس پرندوں سے انسانوں میں یا انسان سے انسان میں آسانی سے نہیں پھیلتا۔ تاہم، ایسے بہت کم واقعات ہوئے ہیں جب ایویئن وائرس ایک بیمار سے دوسرے میں پھیل گیا ہو، لیکن اس شخص سے باہر منتقلی محدود رہی ہو۔

پولٹری  کی صنعت سے وابستہ افراد کیا احتیاطی تدابیر اختیار کر سکتے ہیں؟

پولٹری کے ساتھ کام کرنے والے افراد کو ایویئن انفلوئنزا سے متاثر ہونے کا اندیشہ ہےیا ایسے  افراد جو پولٹری کے ساتھ رابطے میں ہیں۔ انہیں حفاظتی لباس پہننا چاہیے۔ اس لباس میں چہرے کے ماسک، چشمے، دستانے اور جوتے شامل ہیں۔

ایسے معاملات میں جہاں آپ متاثرہ پرندوں سے رابطے میں ہیں۔وہاں ذاتی حفظان صحت کے اقدامات میں ہاتھ دھونا، نہانا اور اپنے تمام کپڑے دھونا شامل ہیں۔ اپنے جوتوں کو صاف اور جراثیم سے پاک کریں۔

انسانوں میں ایویئن فلو کی علامات کیا ہیں؟

اسکی علامات انسانی انفلوئنزا سے ملتی جلتی ہیں اور ان میں بخار، کھانسی، پٹھوں میں درد، گلے کی سوزش (respiratory infections)، آنکھوں میں انفیکشن اور نمونیا  (pneumonia) سمیت سانس کے سنگین انفیکشن شامل ہو سکتے ہیں۔عام طور پر انفلوئنزا کی ذیلی اقسام کے خلاف کوئی ویکسین نہیں ہے۔ کچھ مطالعات سے پتہ چلتا ہے کہ انسانی انفلوئنزا سے لڑنے والی کچھ دوائیں ایویئن انفلوئنزا وائرس سے متاثرہ لوگوں میں سنگین بیماری کو روکنے میں مدد کر سکتی ہیں۔

کیا انفلوئنزا سے متاثرہ پولٹری  مصنوعات کھانے سےانسانوںکو ایویئن انفلوئنزا ہو سکتا ہے؟

اس کا جواب نفی میں ہے۔ ایویئن انفلوئنزا پکے ہوئے کھانے سے نہیں پھیلتا۔ اس بات کا کوئی ثبوت نہیں ہے کہ پکے  ہوئے مرغی کے گوشت  یا انڈے کھانے سے یہ وائرس انسانوں میں منتقل ہو سکتا ہے۔ اگرچہ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن (WHO)ایک اچھی عام مشق کے طور پر مناسب کھانا پکانے کی سفارش کرتی ہے، لیکن یہ ان ممالک میں اور بھی زیادہ اہم ہے جہاں ایویئن انفلوئنزا کی موجودہ وبا پھیلی ہوئی ہے۔ وائرس گرمی سے مارا جا سکتا ہے اس لیے گوشت  کو 75 °C (165 °F) کے اندرونی درجہ حرارت پر پکانا چاہیے تاکہ یہ یقینی بنایا جا سکے کہ وہ کھانے کے لیے محفوظ ہیں۔ انڈوں کو بھی اچھی طرح پکانا چاہیے (بہہ جانے والی زردی نہیں)۔

کھانے اور باورچی خانے کی صفائی بھی ضروری ہے۔ اس بات کو یقینی بنائیں کہ کچی پولٹری مصنوعات کو چھونے یا ان دیگر کھانوں کے ساتھ نہ ملیں جو کچی کھائی جائیں گی۔ ہمیشہ اپنے ہاتھوں کو اچھی طرح دھوئیں اور پولٹری مصنوعات کو چھونے کے بعد سطحوں کو دھوئیں۔

کیا ایویئن انفلوئنزا انسانی فلو کی وبا میں بدل سکتا ہے؟

روایتی طور پر، انفلوئنزا کی وبا اس وقت ہوتی ہے جب ایک نیا انفلوئنزا اے وائرس ظاہر ہوتا ہے۔ جیسا کہ پہلے بتایا گیا، ایویئن انفلوئنزا انسانوں میں آسانی سے یا تیزی سے نہیں پھیلتا۔ یہ خصوصیت وبائی مرض کے لیے سازگار حالات کا باعث نہیں بنتی۔

فلو سے بچنے کے لیے میں کیا اقدامات کرنےہوں گے؟

اپنے آپ کو اور دوسروں کو انفلوئنزا سے بچانے کے لیے آپ جو سب سے اہم قدم اٹھا سکتے ہیں وہ ہے فلو کا شاٹ(flu shot) لینا اور اگر آپ بیمار ہیں تو گھر پر رہیں۔ اپنے ہاتھ باقاعدگی سے دھو کر بھی انفیکشن کے امکانات کو کم کر سکتے ہیں۔

جنگالیا کِلّ، قسط 16 | کُجھ ربّ ورگیاں بیبیاں ۔ 5

 Jangalia Kil, Mother Teresa, Mother Teresa Young

کُجھ ربّ ورگیاں بیبیاں۔٥

 (Mother Teresa) امّاں ٹریسا

 ویسے تاں بھولا مینوں جاندا تاں کئی سالاں توں سی۔ کدے اوہ فِلماں وِچ ایکسٹرا دے رول وِچ کھچت ہوندا، کدے کِسے دی فِلم پروڈکشن وِچ رُجھیا ہوندا، کدے کِسے دی ڈرائیوری، کدے کِسے شاپ تے مکینکی نال متھا مار  رہیا  ہوندا۔ آخر اَک کے اِک دِن میں اوس نوں پُچھ ہی لیا کہ "تُوں بننا کیہ چاہوندا ایں؟" اگوں اوس  بڑے ہی بے خوف لہجے نال کہیا کہ بِلے بھاجی، تُسیں رتا مُٹھ رکھو، ہُن مینوں  تُہاڈی بمبئی دا بھید آ گیا  اے۔ ایتھے آر جاں پار ۔۔ وِچ وِچالے لٹکدے بندے نوں ایتھے کوئی نہیں پُچھدا۔ کئی سالاں توں اوہ میرے سِٹِنگ روم جِتھے اکثر بہہ کے اسیں فِلمی کہانیاں دے سکرِپٹ لِکھدے ساں، اوتھے اوہ آپنی ٹپریواساں وانگوں رات کٹائی کر چھڈدا سی۔

دھرم بھا جی دی ہوم پروڈکشن “پرتِگّیا” سُپرہِٹ ہون توں بعد میں وی آپنی ہوم پروڈکشن وِچ رُجھیا ہویا سی کیونکہ دھرم بھا جی تے اجیت یار نے پُورا پُورا ساتھ دین دی ہری جھنڈی مینوں دے دِتی سی۔ اِک دِن اچانک بھولا مینوں مِلیا، کہندا "بلبیر بھاجی، مینوں آپ نال بہت ضروری کم ہے۔ چنگا تُسیں آپے مِل پئے ہو۔ بس بھا جی تُسیں اِک مہینہ میرے تے بھروسہ کرکے چلّو ۔۔۔ اج توں تُہاڈی پروڈکشن میری پروڈکشن ہووے گی، تُہاڈی ہر اؤکڑ دا توڑ میں کراں گا۔ بھاجی، میرا اِک جانوں بہت بُری طرح  کڑِکّی وِچ پھسیا ہویا ہے۔ اوس نوں دو کُو مہینیاں لئی ڈیڈھ دو لکّھ روپئے چاہیدے نیں۔ اوہ آپنا دس لکھ دا فلیٹ ساڈے ناں کرن نوں راضی ہے۔ آپاں دوویں ودھیا علا قے وِچ رہاں گے۔ دُوجا ادّھے پورشن دا پنج ہزار روپئے سانوں کرایہ مُفت آ جانا ہے۔ نالے چنگی جگہ رہن دا آپنا رُعب وی ہوندا ہے فائینینسراں تے ڈِسٹری بِیوٹراں تے۔گل کیہ بھولے نے مینوں بہُتا سوچن ہی نہیں دِتا۔ کِسے طرح اوہ فلیٹ مینوں دُوا ہی دِتا۔ جگہ سچ مُچّ ہی بہُت ودھیا ایریا وِچ سی۔ اِک دم پارک دے ساہمنے۔ فلیٹ دا باہرلا ماحول تاں بہت ہی دل کش سی۔

پر اندرلا ماحول میری سمجھ توں کُجھ کُجھ باہر سی۔ کُجھ کُجھ میرے لئی ان سُکھاواں جیہا سی۔ پہلے کمرے وِچ اکثر اِک پارسی بابا جی، ہر ویلے اِک میز کُرسی تے گھنٹیاں بدھی بیٹھا، کتاباں تے بہیاں کھاتے نال متھا ماردا رہندا۔ شاید اوس  کول کئی فرماں دے اکاؤنٹ دا کم سی۔ سارے اوس نوں بڑی عزت نال باوا جی یا پاپا کہندے سن۔ اوہ بڑا ہی مِٹھ بولڑا تے مِلنسار سی۔ تھوڑی دُور تے اوس دی اِک لانڈری دی دُکان سی جو اوس دے بچّے چلاؤندے سن۔ پاپا رہندے تاں کِتے ہور آپنے لمبے چوڑے خاندان دے نال سن۔ ایتھے اوس نے اِک کُڑی نوں رکھیا ہویا سی، جِس نوں پیار نال ڈیکرا (پُتری) کہہ کے بُلاؤندے سن پر زیادہ تر اوس نوں امّاں کہہ کے ہی بُلاؤندے سی۔

Mother Teresa
 امّاں دا اصل ناں تاں ایلس سی۔ اوہ ساؤتھ دی رہن والی سی۔ شاید ایسے لئی اکثر ساؤتھ والے چھوٹیاں چھوٹیاں بالڑیاں نوں وی عزت نال امّاں ہی کہہ چھڈدے نیں۔ امّاں اِک سِدھی سادی عام جہی وقت دی مدھولی ہوئی کُڑی سی۔ جانوں اوہ کوئی روٹی ٹُک بناؤن دی مشین ہی ہووے۔ سویرے تڑکسار توں رات تک اوس دے کم ہی نہیں سن مُکدے، بس چل سو چل۔ پتہ نہیں اوہ کِس مِٹّی دی بنی ہوئی سی۔ ٹُٹّی پھُٹّی اوہ ہندی بول لیندی سی۔ ایداں دی ہی درڑی ہوئی انگریزی نوں مُونہہ مار لیندی سی۔ پاپا نال اوہ اکثر گُجراتی جاں پارسی لہجے وِچ ہی گل کردی سی پر آپنی ہتھ وٹاؤن والی نوکرانی ماریا نال واوھا کھُل کےکنڑ بھاشا وِچ گلاّں کردی ناں تھکدی سی۔ دراصل، اوہ آپنی روزی روٹی لئی چار پنج بندیاں لئی لنچ بنا کے ٹِفن بھیجدی سی۔ ایس وِچ اوس دا ہتھ خرچہ تے آپنا کھانا نال نِکل آؤندا سی۔

پاپا دی اوہ بہت سیوا کردی سی۔ وِچوں سماں کڈھ کے اوہ پاپا دی لانڈری وِچ وی دو تِن گھنٹے کپڑیاں دی چھانٹی دا کم کر آؤندی سی۔ فیر شام نوں اوس نے نیڑلی سبزی منڈی وِچ بازار لین چلے جاندی ۔۔۔ اگلے دِن سویر لئی۔

بھولا تھوڑے دِن تاں میرے نال  رہیا ، فیر پتہ نہیں کیہڑے لمبے چکّراں وِچ اُلجھ کے رفو چکّر ہویا، فیر اوس دی کدے کوئی اُگھ سُگھ نہیں مِلی۔ شروع شروع وِچ تاں مینوں ایس گھر دا سارا ماحول عجیب وغریب لگدا سی۔ تڑکسار توں دوپہر تک ٹِفن والیاں دا رولا رپّا پیا رہندا۔"بائی گھائی (جلدی)کرو، ملا (مُجھے)اور بھی ٹِفن اُٹھانے اور بانٹنے ہیں ۔۔۔ آپکی تھوڑی سی چُوک (غلطی)سے میرے سارے دِن کا دھندا چوپٹ ہو جائےگا امّاں۔" کدے امّاں نے رولا پاؤنا "ارے پانڈو، بھائی پانچ تاریخ جھالی، حالے تائیں ٹِفن دے پیسے لے کے نہیں آیا۔ ایسا کیسے چلے گا، میرے کو بھی راشن بھرنا ہے، ماریا بائی اور تُماری پگار (تنخواہ)بھی دینی ہے۔" کُجھ نہ کُجھ مچھی بازار لگیا ہی رہندا۔

اِک دِن امّاں تے پاپا نے مینوں اِک دِن گُزارِش کیتی،"بلبیر جی، تُم بھی اپنا کھانہ، ناشتہ یہیں گھر پے کھا لیا کرو۔ تُمھیں گھر کا صاف سُتھرا، مرضی کا تازہ کھانہ بیٹھے بِٹھائے مِل جائےگا ۔۔۔ اور امّاں کی تھوڑی بہُت مدد بھی ہو جائیگی۔ اگّوں امّاں فٹ دینی بولی، "اینے بندیاں وِچوں آپکا کھانہ تو پھوکٹ(مُفت)وِچ ہی نِکل آئیگا۔ بلبیر جی، آپ زری بھی فِکر نہ کرنا، میں دھیرے دھیرے آپکا پنجابی طریقے کا کھانہ پکانا بھی سکھ لوں گی۔ مینوں دوجیاں دی سیوا کرن وِچ بڑا ہی آنند مِلدا ہے۔"فیر ہولی ہولی میں وی امّاں دے آپنے پن وِچ رچن لگ پیا۔ ہُن مینوں امّاں دا مچھّی بازار آپنی زندگی دا کُجھ کُجھ حِصہ لگّن لگ پیا۔

کئی وار میرے کول آئے مہماناں دی اوس  دِل کھول کے سیوا کرنی۔ بھاویں اوس  وِچاری دا آپنا بجٹ اپسیٹ ہو جائے۔ اوس  رتا پرواہ نہ کرنی۔ کئی وار اوس نے بالکونی وِچ بیٹھیاں دیر رات تائیں مینوں اُڈیکدیاں رہنا۔ فیر مینوں کھانا گرم کرکے دینا۔ میں بتھیرا کہنا ،مینوں ایداں بالکُل چنگا نہیں لگدا۔ میری روح تے ایوں بھار جیہا پیندا ہے۔اوس  ہمیشہ ہس کے ٹال دینا کہ بلبیر جی، آپ بھی تو ہماری روز کی کِٹ کِٹ شور شرابا برداشت کرتے ہو۔

جدوں کدے امّاں بہُت تھکّی ٹُٹّی جاں پریشانی دی حالت وِچ کلّی بالکونی وِچ چٹائی تے بیٹھی ہولی ہولی ٹھرا پیندی رہندی تے وِچ وِچ سِگریٹ دے کش وی کھِچی جاندی۔ کدے کدے رات دے سناٹے وِچ نال دی بالکونی وِچ مینوں بیٹھے نوں اوس دیاں سِسکیاں بھرن دی آواز صاف سُنائی دیندی سی۔ پہلاں پہلاں تاں مینوں اوس دے اجیہے شوق بڑے گھٹیا عورتاں والے لگدے سن۔ مینوں اوس دا کردار وی کُجھ چالُو قِسم دا لگدا سی۔ کدے میرے بھرم نے اوس دا رشتہ پاپا نال جوڑ دینا، کدے کِسے نال۔ فیر ہولی ہولی کُجھ مینوں آپ احساس ہویا۔ کُجھ پاپا نے دسیا کہ ایس وِچاری نے تاں آپنے پِنڈے تے بڑے ہی آپنیاں تے بیگانیاں دے دُکھ آپنی معصوم ننگی روح تے جھلّے نیں۔ ایس وِچاری دی روح بُری طرح پچھی پئی اے۔ غریبی تے لاچاریاں بڑے بڑے بندیاں نوں توڑ کے رکھ دیندیاں نیں۔

امّاں لئی ہولی ہولی میری نفرت ہمدردی وِچ بدل گئی۔ ہُن میں اکثر اوس دے دُکھدے ناسوراں تے آپنی ہمدردی تے اپینت دے پھہے رکھن لگ پیا۔ ہُن مینوں اوس دا کوئی وی کرم اوپرا یا ناگوار نہ لگدا۔ ہُن مینوں ایوں جاپداجیویں میں پاپا تے امّاں ایتھے اِک خاندان وانگ رہ رہے ہاں۔ میں اوس  نوں کئی پنجابی کھانے بناؤنے سِکھائے تے کئی کُجھ اوس  کولوں وی سِکھیا۔ گلاّں گلاّں وِچ اوس  اِک دِن اچانک ہی مینوں پُچھ ہی لیا، بلبیر جی، آپکی فِلم لائن وِچ ایہہ لڑکیاں، شراب، سِگریٹ تاں عام ہی چلّدا ہونا اے۔ بلبیر جی، جے تُہاڈی کوئی گرل فرینڈ ہے تاں تُسیں بے جھِجک ایتھے نال لے آیا کرو۔ میں پُورے دِل سے آپ دونوں کی خاطرداری کرونگی۔" مینوں اِک دم امّاں دی گل تے غصّہ وی آیا تے فیر کِتے اوس دی لُکی ہوئی معصوم محبت تے ناز وی محسوس ہویا۔ میں کہیا،"امّاں، اجیہی کوئی گل نہیں۔ مینوں ایہناں تِنّاں چیزاں دا کوئی شوق نہیں۔ دُوجا میں آپنے گھر نوں سدا  اِک مندِر وانگ پاک رکھنا چاہوندا ہاں۔ بس میرا کم ہی میری عبادت ہے۔ ویسے امّاں، تیری ایس صاف گوئی تے زِندہ دِلی لئی بہُت بہُت شکریہ۔ "

"بلبیر جی، آپکی عبادت سے یاد آیا، میں ہر بُدھوار مہیم چرچہ وِچ نوینے (ارداس لئی)کے لیے جاندی ہاں۔ اوتھے سارے ہِندو، سِکھ، مُسلِم، عیسائی اِکٹھے رل کے دُعا کردے نیں۔ کہندے نے، کوئی اوتھے لگاتار نوں نوینے پُورے کر لوے تاں اوس دیاں سارِیاں من دِیاں مُراداں پُوریاں ہو جاندیاں نیں۔ اب میں بلبیر جی، آپکی کامیابی کے لیئے نوں نوینے پُورے کروں گی ۔۔۔ اگر بلبیر جی، آپ آپنے نوں لگاتار نوینے پُورے کر لوگے تو ۔۔۔ گوڈ آپکی ساری مُرادیں پُوری کر دیگا ۔۔۔ ایسا میرا اِک دم نکی فیتھ ہے اوس  پر۔۔ "

اچھا، میں تیرے نال نوں لگاتار نوینے پُورے کروں گا۔ اگر تُم مُجھے آپنی ساری آپ بیتی (کہانی) سُناؤ گی تو۔" امّاں وِچاری دِیاں اکّھاں بھر آئیاں تے لمبا جیہا ہوکا لے کے کہیا کہ"بلبیر جی، کی لووگے ایویں گندگی بھرے گٹر نوں پھرول کے۔میں اگّوں کہیا جیویں تیری مرضی۔ تینوں کوئی مجبوری نئیں۔اچّھا بلبیر جی، اِک تاں میں آخری وار تھوڑی شراب پی کے سُناؤں گی۔ دُوجا میرے نال اِک وعدہ کرو کہ میری کہانی سُن کے مینوں جِنّی مرضی نفرت تُسیں کرنا ۔۔۔ پر غُصّے وِچ آ کے مینوں تے میرے پاپا نوں ایس فلیٹ وِچوں کڈھنا نہیں ۔نہیں امّاں نہیں، جے توں مینوں تنگدِل سمجھدی ایں تاں بے شک نہ سُنا۔

تد امّاں نے دو تِن موٹے گُھٹ شراب دے پیتے تے نال ہی اِک لمبا کش سِگریٹ دا کھِچیا تے دھوآں پُورے تان نال اسمان ول وکھیر کے بولی، اصل وِچ ایس دھوئیں ورگی ہی میری آپ بیتی ہے بلبیر جی۔ اسیں کیرلا دے کِسے چھوٹے جیہے پِنڈ وِچ رہندے سی۔ میرا پیو ڈیوِڈ اِک چرچ وِچ قبراں پُٹّن توں لے کے سارے ہی چرچ دے کم کردا ہوندا سی۔ میرے پیو دی شراب پین دی بھیڑی لت دی  وجہ توں اوس دی چرچ دی نوکری وی گئی۔ فیر ہولی ہولی گھر دے بھانڈے تک وِک گئے۔ اُتّوں اسیں چھ بھین بھرا، میں گھر وِچ سبھ توں وڈّی دھی سی، ماں اکثر بیمار رہندی سی۔ لاچاری تے غریبی نے میرا سکول جانا وی چھُڑا دِتا۔ عیاش، شرابی، غیر ذمہ وار باپ دِیاں نالائقیاں نے آپنی ساری قبیلداری دا بوجھ اِک معصوم باراں سال دی کُڑی دے گل مڑھ دِتا۔ میرا اِک نن بن کے غریب، بیمار، اپاہجاں دی سیوا کرن دا سُفنا وِچے ہی کھُر گیا۔ فیر آنڈھ گُوآنڈھ دے بھانڈے مانج کے، آپنے ٹبّر دی اِک باراں سالا امّاں بن کے پالنا کردی رہی۔

آپنی بدقسمتی، غریبی لئی سدا  جھوردی رہی۔ ماں دی دوائی دے پیسیاں دی وی باپُو آپنی دوائی (شراب)لے لیندا۔ ماں چاہے سہِکدی دم توڑدی رہے، چھوٹے بھین بھرا بُھکھ نال بِلکھدے رہن ۔۔۔ باپُو اینا ڈھیٹھ جیہا ہو گیا سی۔ اخیر مجبوراً باپُو نوں شہر آؤنا پیا۔ اوہ تاں چنگی قِسمت نال باپُو نوں پاپا دی لانڈری وِچ کم مِل گیا۔ جو وی باپُو نے کماؤنا، کھانا گھٹ تے پینا زیادہ۔ ہولی ہولی باپُو دی اِک دارُو ویچن والی آئی نال یاری ہو گئی۔ اوس دے ہی کہے تے مینوں شہر سد لیا گیا۔ بس فیر کی میرے بے غیرت پِیو نے جوان دھی دے ساہمنے ہی اوس  حرامی آنٹی نال گُلچھرے اُڈاؤنے۔ دِنیں سارا دِن اوس دے گھر دے بھانڈے اور روٹی ٹوک کا سارا کام کرنا۔ راتیں اوس دے اڈّے تے شراب ویچنی پیندی۔ طرح طرح دے گُستاخ شرابیاں نے سرعام میرے نال چھیڑخانیاں، بدتمیزیاں کرنیاں۔ جے میں رتا وی حیل حجّت کرنی تاں بیلٹاں تے سوٹیاں نال مینوں اوہناں دوہاں نے کُٹّنا۔ جو وی پیسے ایدھروں اودھروں بخشیش وی بھیکھ وانگ مِلنی، اوہ میں چوری پِنڈ پِچھے آپنے چھوٹے بھین بھراواں تے بیمار ماں نوں بھیج دینی۔

اِک دِن اوس  آنٹی نے مینوں آپنے کِسے عیاش شرابی گاہک نال رات باہر جان لئی مجبور کیتا۔ اگر تجھے بہت پیسے چاہیئے تو بھین چود سالی رانڈ بن کے دھندے پر چڑھ جا۔ فیر پیچھے گاؤں والوں کو خوب پیسے بھیجنا۔ اوس  رات اوہناں دوناں نے دارو وِچ ٹلّی ہو کے مینوں پشواں وانگ کُٹیا۔ مار مار کے میرے سارے پِنڈے تے نیل لاشاں پا دِتیاں۔ دُوجے دِن میں روندی کُرلاؤندی پاپا دی لانڈری تے چلے گئی۔ پاپا جی بڑے ہی درویش تے رحم دِل بندے سن۔ ہمیشہ مینوں اوہناں اِک آپنی دھی وانگوں پیار دُلار دِتا اتے میرے پِیو نوں اوسے دِن لانڈری وِچوں دھکّے مار مار کے کڈھ دِتا۔ اوسے دِن توں پاپا نے میری سرپرستی دی سونہہ کھا کے آپنی بزُرگی دا میرے سِر تے ہتھ رکھ دِتا۔ 

پہلاں پہل میں سارا دِن لانڈری وِچ ہر طرح دے چھوٹے کم کرنے تے فیر پاپا دے گھر جا کے سارے گھر دے کم کرنے۔ آخر اِک دِن پاپا نے میرے تے ترس کھا کے ایتھے اِک کمرہ تے رسوئی کِرائے تے لے لئی تے مینوں لوکاں دے ٹِفن بنا کے بھیجن دے آہرے لا دِتا۔ ہُن جو وی کُجھ ہے میرا پاپا ہی سبھ کُجھ میرے لئی نیں، میری ماں، میرا باپ، میرا تاں گوڈ وی ایہی ہے۔ بلبیر جی، پاپا دی سیوا ہی ہُن میری عبادت ہے۔ہُن میں کِنی دیر توں اِک بُت وانگر امّاں نوں نِہاردا  رہیا ۔ آپ مُہارے میرے ہنجُو بہہ رہے سن۔ میرا سِر پُورے احترام نال امّاں اگے جھُکیا ہویا سی۔

پچھلے چھ بُدھوار میں امّاں نوں اُچیچے طور تے آپنی کار وِچ نوینے کرن لے کے گیا۔ آپنی کامیابی لئی امّاں دے گوڈ اگے جودڑیاں کیتیاں۔ حالے ستواں ہفتہ شروع ہی ہویا سی کہ لدھیانہ (پنجاب) توں میرے ماتا جی دی بیماری دی خبر آ گئی۔ مینوں سارے کم وِچے چھڈ کے جانا پیا۔ رات اگلی بھلکے جان دی میں تِیاری کر  رہیا  ساں۔ اوس  رات اچانک امّاں میرے گلے لگ کے بڑی ہی روئی۔ بڑی ہی جذباتی ہو کے کہن لگی،"بلبیر جی، تُسیں اکثر ہی کہندے رہندے ہو کہ میری ماں مینوں بہُت پیار کردی ہے تے میری ہی وجہ توں اوہ بیمار وی رہندے نیں تے مینوں ہمیشہ اوہناں دی ہی فِکر ستاؤندی رہندی ہے۔ میں آپنی ماں دا بڑا ہی من دُکھایا ہے۔ اوہناں دی سیوا کرن دا میرا سبھ نالوں وڈّا دِلی ارمان سی۔

 کیہ بلبیر جی، ایس یتیم لاوارث کُڑی تے اِک احسان کروگے؟ بلبیر جی، مینوں اِک وار آپنے نال پنجاب لے چلّو، بس اِک نوکرانی، اِک سیوادارنی سمجھ کے ہی لے چلّو۔ میں تُہاڈی ماں دی رجّ کے جی جان نال بے غرض سیوا کراں گی۔ مینوں تُہاڈے کولوں تے تُہاڈے گھردیاں کولوں کُجھ وی معاوضے وِچ نہیں چاہیدا۔ بس اوہ وی تھوڑی جیہی آپ دی ماں دی ممتا تے اپینت مِل جائے تاں میں دھن ہو جاواں گی۔ دو ٹوک روٹی دے تاں لوکیں پالتو کُتے نوں وی پا دیندے نیں ۔۔۔ بس اینا ہی۔ مینوں آپنے ادھورے سُفنے پُورے کرن دا اِک نِمانی جیہی کوشش تاں کر لین دِیو بلبیر جی۔ اِک پنتھ دو کاج ہو جائینگے - ماں کی سیوا بھی، آپکی پُوجا بھی۔اوہ جھلّی ممتا تے سیوا دی دیوی، آپ وی رجّ کے روئی تے مینوں وی بھُبّیں رُوآیا۔ میں اوس  نال وعدہ کیتا، ایس وار مینوں جا لین دے۔ اگلی وار تینوں ضرور نال لے کے چلُوں گا آپنی ماں کول۔

"میں تاں بلبیر جی، آہ دیکھو اِک پنجابی سوٹ تے کڑا وی (آپ جیسا) لے کے رکھیا ہویا سی۔ یہ دیکھو بلبیر جی، اوس  دِن توں بعد میں دارُو تے سِگرٹ نوں کدے ہتھ وی نہیں لایا۔" میں اِک دم ہکّا بکّا جیہا ہو کے اوس  ول بِٹ بِٹ تکّدا  رہیا ۔ جانوں اوس دی انبھول سچّی سُچی معصوم جہی محبت نے مینوں سدا  لئی کیل کے رکھ دِتا۔

پر ماڑی قِسمت، میں پنجاب اجیہا آیا مُڑکے ڈھاڈی قِسمت تے حالاتاں نے بمبئی پرتن ہی نہیں دِتا۔ میری بیمار ماں ضِد کرکے بہہ گئی، تینوں میری سونہہ، تینوں میرے پیار دا واسطہ، میری اج پہلی تے آخری گل من کے ایتھوں سِدّھا کینیڈا نوں آپنے بھین بھراواں کول چلے جا۔کیویں وی دِل تے پتھر رکھ کے، تے امّڑی  دے حکم دا ودھا رُدھا چلے تاں گیا پر چار سال تِل تِل کرکے کنیڈا وِچ روز مردا  رہیا ۔ سبھ کُجھ ریت وانگوں ہر ساہ کِردا  رہیا ۔

جدوں چار سال بعد سِدھا کناڈا توں بمبئی پہُنچیا، پِچھوں پاپا دُنیا چھڈ کے چلے گئے سن۔ وِچاری امّاں پتہ نہیں کِتھے رُل کھپ گئی۔ بڑا ہی امّاں نوں لبھیا - بڑے ترلے گھتے۔ اج نہ ہی ماں رہی ناں اوس دی سیوا کرن والی مِلی۔ بڑے چاواں نال آپنی ایلس نوں سدا  لئی آپنی بنا کے کینیڈا لیجان لئی آیا ساں۔ پر میرے ورگے کرماں مارے نِمانے جیہے بندے لئی ربّ ورگی سیوا دی پُنج ایلس عرف "امّاں ٹریسا" کِتھوں۔۔؟ میری نظر وِچ ایلس سچ مُچّ ہی ’’ امّاں ٹریسا ‘‘ توں گھٹ نہیں سی (امّاں) اوہ چِکّڑ وِچ اُگ کے وی اِک اجیہا کمل سی، جِس دی نرمی، نزاکت تے تازگی ہمیشہ جیُوندی رہی۔ بھاویں تِن دہاکے توں اُتے ہو چُکے نیں امّاں توں وِچھڑیاں، عمر دا آخری پڑاء آ گیا ہے۔۔۔۔ فیر وی ۔۔۔۔

نہ جانے پھِر بھی کیوں انتظار ہے

آنے کا تو کوئی بھی وعدہ نہیں ہے

جاری ہے۔۔۔۔۔

Monday, 27 February 2023

جنگالیا کِلّ، قسط 15 | کُجھ ربّ ورگیاں بیبیاں ۔ 4

 Jangalia Kil

 کُجھ ربّ ورگیاں بیبیاں۔٤

رادھا بھابو

چوتھی بی بی، رادھا بھابی جی، جو سچ مُچّ ہی آپنے ناں دی ہُو بہُو ترجمان سی۔ پیار، محبت، اپینت، ایرکھا توں بے لوث سی۔ جو چھوٹے جیہے قد دی چلدی پِھردی کِسے مندِر دی مُورتی ہووے۔ اوس کول ہر آپنے بیگانے دا دُکھ ونڈاؤن دا ویلا سی پر اوس کول آپنے دُکھ سانجھے کرن والا کوئی آپنا نیڑے تیڑے نہیں سی۔ اوہ ہر اؤکڑ نوں ہس کے سہن دی شاید عادی ہو گئی سی۔ ہر ذلّت، نموشی نوں نظر انداذ کرنا اوس دی ادا بن چُکی سی۔ اوس دی برداشت اِک میہنا، کہ میسنی جِنّی چھوٹی اونی کھوٹی، نِری بمب دی گولی ہے۔ پتہ نہیں کیہ کیہ ناقدری بھرے لفظ چُپ چاپ آپنی جھولی وِچ پا لیندی سی۔ شاید اوس نے وی ڈولی دیدی وانگ آپنے ماں پِیو کولوں بہُت ہی اُچیاں تے سُچیاں قدراں وِرثے وِچ مِلیاں ہوون جو اوس نوں کدے ڈولن نہیں سن دیندے۔

اتفاق نال اوہ میری بُھوآ دی وڈّی نونہہ سی۔ میرے پھُپھّڑ جی دی تاں کئی دہاکے پہلاں موت ہو چُکی سی۔ ہُن میری بُھوآ سمیت سارا ہی ٹبّر پُورا بنبایا ہو چُکا سی۔ پُورے ہی کاروباری تے کورے جیہے۔ دِلی پیار، محبت، اپینت، منُکھتا اوہناں لئی ایہہ سارِیاں گلاّں یا فِلمی یا کتابی لگدیاں سن۔ سبھ نالوں پہلاں سبھ نے آپنا فائدہ، آپنا سُکھ دیکھنا۔ کِسے دے دِل نوں ٹھیس لگے گی، اوہناں دے کھُردرے وطیرے نال، یا کِسے دے نرم جذبات لہو لُہان ہون گے۔ جانوں اوہ سارے ہی بے لحاظے، بے کِرکے، بے مُروّت جیہے ہو گئے سن۔ جِتھے رادھا ورگی رحم تے پیار دی مُورت دی بھاویں کِنّی وی بے قدری ہووے، کِسے نوں کوئی لینا دینا نہیں سی۔ اجیہی مارو، بے رحم دھرتی وِچ رادھا ورگی نرم روح نے کی پنپنا سی سگوں اندرو اندریں مُرجھاؤنا ضرور سی۔

کدے کدے میں آپنی بُھوآ نوں مِلن بوریبلی (بمبئی)چلے جاندا۔ اسیں دوویں، میں تے رادھا بھابو اوہناں شہری بنبایا بندیاں دے وِچ گُوآچے گُوآچے اجنبی جیہے لگدے ساں۔ اوہناں ساریاں نے اکثر ہِندی یا مراٹھی وِچ ہمکی تُمکی جیہی بولدے رہنا۔ میرے نال کدے کدے بُھوآ جی نے گُلابی جہی ٹُٹّی پھُٹّی پنجابی بولنی۔ پر میں تے رادھا بھابی جی اکثر آپو وِچ ٹھیٹھ پنجابی ہی بولدے سی۔ کئی وار اوہناں چِڑکے سانوں پینڈو گوار وی کہہ دینا۔ کئی وار بھابو دے موٹے موٹے نیناں وِچ لالی دیکھ کے میں کہنا، “بھابو، اج پھیر رج کے روئی سی۔” “نہیں بِلّے

بھاپے (وِیر)، ایویں گنڈھے کٹدی دِیاں اکھاں بھر آئیاں سن۔ کدے کدے بھابو نے جدوں آپنے کالے گھٹ زمین نال گھِسردے لمّے لمّے والاں نوں سمیٹ کے ہِک لمبی جہی موٹی گُت کر لینی تاں میں بھابو نوں رتا ہساؤن لئی کہنا، "بھابی، تیری گُت ورگا سپ لے کے سپیرا آیا۔" کدے میں لاڈ نال پُچھنا،"بھابو، کرشن وِیرا تاں ایہہ تیرے موٹے موٹے نیناں دی مستی تے کالے گھٹ والاں وِچ گواچ ہی جاندا ہونا اے۔" اگوں بھابو نے اِک ڈونگھا سرد ہوکا بھر کے نال ہی ہنجُو کیردیاں کہیا،"بِلّے بھاپے، اینی تقدیر تیری بھابو دی کِتھے؟" فیر مینوں اِک دم اوس وِچوں آپنی ڈولی دیدی دِسّن لگ پئی۔ میرا دِل تاں کردا کہ میں آپنی ایس پردیسن بھین نوں آپنی ممتا دی نِگھّی بُکّل وِچ لے کے چُپ کراواں پر ہمیشہ ہی میرا احساس اوس دے پالک پیراں تے ہتھ رکھ کے، آپنی عقیدت دے پُھل چڑھا چھڈدا تے اندروں اندری ہی اوس وِچاری لئی ربّ اگّے دُعا کردا تے آپنے چھلکے اتھّرواں نوں پلکاں وِچ ہی لکو لیندا۔

ہولی ہولی وقت نال بھابو سمجھوتے کردی رہی۔فیر ربّ نے اوس نوں دو سوہنیاں سوہنیاں پُتّریاں دی دات دے دِتی۔ میری بُھوآ تے بھابو دِیاں دوویں وڈّیاں نناناں نے گلاّں گلاّں وِچ دِھیاں لئی وی ایسے وِچاری دا قصور کڈھی جانا، جانوں اوس دی ایس کسوتی جیہی گھر گرہِستی نے اوس دا ہور وی جیؤنا دوبھر کر دینا۔ جیویں کِسے کُبّے دے ماری لت نے اوس دا کُب کڈھ دِتا ہووے۔ ایسے طرح بُھوآ دے گھردیاں نے رل کے رادھا بھابو نوں الگ کر دِتا۔ اُلٹا بھابو دی جان سوکھی ہو گئی۔ بھابو نے اؤکھے ویلے آپنا صِدق نہیں ہاریا۔ پُورے ہٹھ تے شِدت نال ڈٹی رہی۔ کدے ایم۔اے دی ڈِگری اوس پہلاں ہی پاس کیتی ہوئی سی۔ ایس لئی چھیتی ہی آپنی لگن تے محنت صدقہ سکول وِچ اُستانی توں پرنسپل بن گئی۔ کرشن نوں وی بینک کلرک توں بینک منیجر دی پرموشن مِل گئی۔ کل تائیں جِس نوں سارے کھوٹا سِکہ کہندے سن، ہُن اوہ سارے اوس نوں سونے دا سِکّہ کہندے نہیں سن تھکدے، اوہ وی بالکل لکشمی ماں دی مُورت والا سِکّہ۔۔۔۔۔ پر کیہ کرشن ویرے دی گرم مِزاجی پل وِچ تولا تے ماسہ والی گل سی۔ اُتّوں بُھوآ دی خواہ مخواہ  دی دخل اندازی، اوہناں دی چنگی بھلی چلدی گرہستی دی گڈّی نوں پٹریؤں لاہ دینا۔ توں تڑک، میں میں گالی گلوچ ہون لگ پیندی۔ کدے کدے مینوں ایویں وِچ لپیٹ لینا۔ میرے نال وی مندا ورتارا کرنا۔ جے میں دُکھی ہو کے جان لگنا تاں بھابو نے ترلا جیہا کرنا، “بِلّے بھاپے، جِتھے آپنی بھین دا اینا چِر ساتھ نِبھایا اے، تھوڑا جیہا ہور سہہ لے۔ میرے  کرکے نہ صحیح، دیکھ ایہہ نِکّیاں نِکّیاں بچّیاں تیرا کِنّا موہ کردیاں نیں۔ جد وی ساڈی مہا بھارت چھِڑدی ہے تاں ایہہ وِچاریاں سہم کے آپنے چاچے دے گل لگ جاندیاں نیں۔

میں وی کئی واری آپنی فِلمی جدو جہد نال جُوجھدیاں جد بہُت نااُمید ہو کے ٹُٹ جیہا جاندا سی تاں ہمیشہ ہی اوس ممتا دی دیوی نے جیویں کِسے مندِر وِچوں نِکل کے، اِک نِکّی جیہی ماں بن کے، مینوں آپنی ممتا دا نِگھّ دینا۔ آپنے پلّو نال میرے کوسے ہنجُو پُونجھ کے دلاسہ دینا۔ کُجھ وی ہو جاوے، مینوں اوس  نے کدے بھُکھا نہیں سی سون دِتا۔ نہ ہی کدے میلے کپڑے دھون دِتے۔ ہمیشہ میری ہتھیں سیوا کیتی۔

جد میں آپنی عنبریں فِلم دا گوروگانؤں فلمستان وِچ مہورت کیتا تاں میری فِلم دے مہورت شوٹ لئی اُچیچے طور (دھرمِندر بھا جی دی ماتا)بے بے جی آپ چل کے آئے۔ اوس  دِن دُوسری میری خصوصی مہمان رادھا بھابو سی جِس نے آپنے مُبارک ہتھاں نال ناریل توڑن دی رسم نِبھائی۔ اوس  دِن میں دو ربّ ورگیاں بِیبیاں دا اِکٹھا آشیرواد لے کے آپنی پلیٹھی دی پنجابی فِلم دا آغاز کیتا۔ جدوں رادھا بھابو نوں جیویں برساں توں گواچی کِسے وِچھڑی دِھی وانگوں، اوس  نوں آپنی نِگھّی بُکّل وِچ لے کے رج پیار کیتا۔ رادھا بھابو بے بے جی نوں مِل کے دھن تے پُرسکون ہو گئے سن۔ پر میرے ایس فِلمی جنون نے میتھوں میری ماں سدا  لئی کھوہ لئی۔ کدے آپنے شوق دا اینا مُل تارنا پوے گا۔ میں بالکُل اندر باہروں ٹُٹ کے مُڑ کینیڈا دی دھرتی تے آ گیا۔

بدقسمتی نال بھر جوانی وِچ ہی میری ماں ورگی بھابو بیوہ ہو گئی پر اوس  کرشن دی ساری شکتی نوں آپنے اعتماد تے صِدق وِچ سمو لیا۔ جد تقریباً وِیہہ سال بعد میں بمبئی پرتیا۔ ہُن بمبئی شہر وِچ اینا بھیڑبھڑکّا، شورشرابا، سبھ کُجھ بدلیا بدلیا ہویا سی۔ میری بھابو وی بہُت بدلی بدلی جیہی لگدی سی۔ موٹے موٹے نیناں اُتے موٹا جیہا کالا نظر دا چشمہ چڑھیا ہویا سی۔ ہُن کالے شاہ والا والے بنگالی سپیرے دے سپ دا نوڑکے وڈّا سارا چاندی رنگا سِر تے جوڑا کیتا ہویا سی۔ پر چہرے تے نور اگّے نالوں وی ودّھ سی۔ مینوں اچانک دیکھ کے اِک دم حیران جیہے ہو گئے۔ میں بھابو دے ہمیشہ وانگ پیریں ہتھ لایا۔ اوہناں آپنے وڈّیپن دا آشیرواد وی دِتا۔ اسیں دوویں اِک دُوجے دے گلے لگ کے رجّ کے روئے۔ فیر بھابو مینوں کِنی دیر تائیں نِہاردی رہی تے کہن لگّی، "بِلّے بھاپے، ایہہ کی حال بنا لیا اے ۔۔ چِٹّی پگڑی، چِٹّی دودّھ ورگی داڑھی، اِک دم بابا جی لگدے ہو۔ ہاں بابا جی، اگے توں تُسیں میرے پیریں ہتھ لا کے مینوں پاپاں دی بھاگی نہیں بناؤنا، سگوں اگے توں میں بابا جی دے پیریں ہتھ لایا کرُوں گی۔" اسیں دوویں ہس پئے۔

سو! اج کل بھابو جی، زندگی کیویں بیت رہی ہے؟اگوں بھابو نے بڑی ہی سکون نال کہیا، بِلّے بھاپے، جوانی تیری بُھوآ دے ٹبّر نال سمجھوتیاں وِچ بیت گئی۔ باقی دی تیرے ویرے کرشن پِچھوں بچّیاں نوں پروان چڑاؤن وِچ چلی گئی۔۔۔ بچّیاں دے اگوں بچّیاں ہو گئیاں نیں۔ گھر گرہستی ولّوں ربّ دا ُشکر ہے۔ ہُن بچی کھُچی زندگی غریب، لوڑوند، لاچار، مظلوماں دی سیوا وِچ گُزار رہی ہاں۔ بِلّے بھاپے، بڑا ہی سکون مِلدا ہے جدوں آپنے نالوں دوجیاں دا دُکھ وڈّا لگّن لگ پئے۔” بھابو نے سچ مُچّ ہی آپنے ودھیا گھر نوں اِک آشرم بنا لیا سی۔ کدے سویرے سویرے بھابو غریب، یتیم بچّے بچّیاں دی پڑھائی دی کلاساں لے رہی ہے۔ اوہ حالے گئے تاں لوڑوند عورتاں بچّیاں لئی گھروں راشن دے کے کھانا بناوُن دِیاں کلاساں لے رہی ہے۔ شاماں ڈھلیاں تاں کُجھ ادّھ کھڑ، بزُرگ عورت، مرد آؤنے شروع ہو گئے۔ پہلاں اوہناں لئی رل مِل کے چاہ ناشتہ تیار کیتا، فیر سبھ نے مِلکے پربھُو دے گُن گان کیتے تے فیر رل کے آرتی دی رسم ادا کیتی۔ انت وِچ سارے بِردھ طوطیاں نوں پڑھائی دا پاٹھ پڑھایا گیا۔ پتہ نہیں ہور کیہ کیہ لوک سیواواں وِچ نِکّی جہی ربّی مُورتی رُجھّی رہندی۔ کدوں تھک ٹُٹ کے سوندی تے فیر سویرے اوہی تانتا شروع ہو جاندا۔

میری ربّ ورگی بھابو دی ہُن منُکھی سیوا ہی عبادت بن گئی سی ۔۔۔ ۔۔

جاری ہے۔۔۔۔۔

Sunday, 26 February 2023

भाई का क़तल । Ein Brudermord

 Franz Kafka - Ein Brudermord

भाई का क़तल । Ein Brudermord

लेखक: फ्रांज काफ्का । Franz Kafka

ये स्पष्ट हो चुका है कि ये क़तल निम्मलिखित तरीक़े से हुआ था:

क़ातिल, जिसका नाम शमार था, इस चाँदनी-रात को नौ बजे गली के इस कोने पर खड़ा हो गया था, जहां से मक़्तूल को, जिसका नाम वीज़े था, अपने दफ़्तर वाली गली से निकल कर इस गली में मुड़ना था, जहां वो रहता था

हर किसी पर बारिश की तरह बरसती रात की हुआ बहुत शीत थी। शुमार ने केवल एक पुतला नीला सूट पहना हुआ था और इस के ऊपर पहने हुए कोट के बटन खुले थे। उसे सर्दी नहीं लग रही थी। वो निरंतर हरकत में था। क़तल का हथियार एक नंगी संगीन की तरह भी था और रसोई घर के प्रयोग में अन्य वाली एक बड़ी छुरी जैसा भी, जिसे इस ने बड़ी मज़बूती से पकड़ में ले रखा था। वो जब इस लंबी छुरी को चांद की चांदनी में ग़ौर से देखता, तो इस का फल चमकने लगता। शमार के लिए ये भी काफ़ी नहीं था। इस ने उसे गली की पक ईंटों पर रगड़ा, तो इस में से चिनगारियां निकलने लगीं।

फिर जैसे वो अपने किए पर कुछ पछताने लगा। इस ने इस नुक़्सान की भर के लिए अपनी एक टांग पर खड़े हो कर इस क़तल के हथियार को अपने लंबे बूटों में से एक के तलवे पर ऐसे रगड़ा, जैसे कोई वाइलन वादक अपने हाथ को वाइलन बजाने के लिए हिला रहा हो। वो आधा आगे की तरफ़ झुका हुआ था और जैसे ही इस ने इस संगीन को अपने लॉंग बोट के तलवे पर-ज़ोर से रगड़ा, तो वो इस में से निकलने वाली आवाज़ सुनने के साथ साथ इस बात पर भी ध्यान लगाए हुए था कि

क्या साथ वाली गली से कोई आवाज़ तो नहीं आ रही?"

पालास नामक वो आम नागरिक , जो कास की एक इमारत की दूसरे माले की एक खिड़की से ये सब कुछ देख रहा था, वो आख़िर ये सब कुछ क्यों बर्दाश्त कर रहा था? इस के लिए मानो स्वभाव में छिपी पहेलियां बूओझी जाना चाहियें। शमार ने अपने कोट के कालर खड़े किए हुए थे, एक ड्रेसिंग गाऊँ को अपने चौड़े शरीर पर लपेटा हुआ था और अपने सर को अनिश्चिता से हिलाता हुआ वो नीचे ज़मीन पर ही देखता जा रहा था।

इस से केवल पाँच घरों की दुरी पर, गली के दूसरी ओर , मिसिज़ वीज़े अपने रात के कपड़ों पर लोमड़ी की खाल का कोट पहने अपने पति का इंतिज़ार कर रही थी, जिसने आज घर लौटने में असामान्य रूप से देरी कर दी थी।

फिर अंततः वेयज़े के दफ़्तर के दरवाज़े से लटकती घंटी बजी। एक दरवाज़े की घंटी और इतनी तेज़ आवाज़, पूरे शहर में, आसमन तक फैल जाने वाली आवाज़। वेयज़े, बड़ी मेहनत से रात देर तक काम करने वाला वयक्ति, गली में इस के पैर पड़ना शुरू हुए थे लेकिन वो नज़र अभी तक नहीं आ रहा था। इस के अपने दफ़्तर से निकलने का ऐलान इसी घंटी ने किया था। फिर जैसे गली के पथरीले रास्ते ने इस के शांत पैरों को गिनना शुरू कर दिया।

पालास बहुत आगे तक झुक गया था। वो नहीं चाहता था कि कुछ भी इस के अवलोकन में आने से रह जाये। मिसिज़ वेयज़े ने घंटी की आवाज़ सुनने के बाद संतुश्ट हो जाने पर बड़े आराम से अपने कमरे की खिड़की बंद कर दी। शुमार के पास छिपाने के लिए तब और तो कुछ था नहीं, इसलिए उसने घुटने टेक कर अपने हाथ ज़मीन पर रख दिए और अपना चेहरा भी गली की पथरीली सतह के क़रीब-तर कर दिया। इस पुल जब सब कुछ सर्दी से जम रहा था, शमार का शरीर दहक रहा था।

बिलकुल उस जगह पर जहां दोनों गलियाँ एक दूसरे से अलग होती थीं, वेयज़े रुक गया था। वहां गली की नुक्कड़ पर केवल उस की छड़ी नज़र आ रही थी, जिसकी सहायता से चलता हुआ वो वहां तक पहुंचा था। फिर जैसे किसी अचानक ख़्याल ने उसे रोक लिया, रात के वक़्त गहरे नीले और सुनहरी आकाश ने उसे अपनी और आकर्षित कर लिया था। उसने बड़ी अज्ञानता से आकाश की और देखा, फिर उसी अज्ञानता से अपने सर पर रखे हैट को उठा कर अपने बालों को खुजाया। वहां पर कुछ ऐसा था ही नहीं जो उसे ये इशारा दे सकता कि किशन भर में क्या कुछ होने वाला था।

सब कुछ तो अपनी व्यार्थता वाली उसी जगह पर था, जिसकी जांच पड़ताल संभव ही नहीं होती। अपने तौर पर बहुत तार्किक और समझने योग बात तो ये होती कि वेयज़े चलता जाता। लेकिन शुमार की संगीन तो उस के इंतिज़ार में थी और वहीं वो पहुंचा

वीज़े!

शुमार चीख़ा, जो इस सिम अपने पांव के पंजों पर इस तरह खड़ा था कि इस का एक बाज़ू पूरा बाहर को निकला हुआ था और छुरी वार करने के लिए तैयार थी।

वेयज़े”

जुलिया का इंतिज़ार तो वीरथ ही गया! फिर शमार ने पहले वेयज़े के गले पर दाएं तरफ़ एक वार किया, फिर एक बाएं तरफ़ और तीसरा, गहिरा वार सीधा पेट में। पानी में रहने वाले चूहे भी, अगर उनके पेट चाक कर दिए जाएं तो, ऐसी ही आवाज़ें निकालते हैं, जैसी वेयज़े के शरीर से निकल रही थीं।

काम तमाम!

शुमार ने कहा, और इस ने इस छुरी को, जो अब फ़ौलाद का एक बेफ़ाइदा, ख़ून लगा टुकड़ा थी, अगले ही घर के सामने फेंक दिया।

क़तल से मिलने वाल आनंद सुकून, शिखर की ओर वो परवाज़ जिसकी वजह किसी दूसरे का बहता ख़ून बनता है। वेयज़े, एक बूढ़ा हो चुका रात का साया, दोस्त, बेअर बैंक का साथी, जिसका उबलता ख़ून अब गली की अँधेरी सतह पर फैलता जा रहा था। तुम सिर्फ ख़ून से भरा हुआ एक बुलबुला क्यों नहीं हो, कि मैं बस तुम्हारे ऊपर खड़ा हो जाता और तुम सिरे से ही ग़ायब और ख़त्म हो जाते। आशाऐं सारी तो पूरी नहीं होतीं। ख़ाब जो फूलों की तरह खुल भी जाते हैं, सारे ही फलदार तो नहीं होते। तुम्हारा भारी बाक़ी शरीर अब यहां पड़ा है, जिसे अब किसी भी ठोकर से बिलकुल कोई फ़र्क़ नहीं पड़ता। अब इस मूर्खता भरे प्रश्न से भला क्या फ़र्क़ पड़ता है, जो तुम यूं पूछ रहे हो?

पालास ने, जिसे अपने पूरे शरीर में फैलते जा रहे ज़हर के कारन अपना सांस रुकता हुआ महसूस हो रहा था, यकदम ख़ुद को अपने घर के दो राज़्य के सामने खड़ा पाया और दरवाज़े के दोनों पट जैसे एक झटके से खुल गए थे।

शमार, शमार”

सब कुछ देख लिया गया, कुछ भी इन-देखा नहीं हुआ। पालास और शुमार ने एक दूसरे की आलोचनात्मक समिक्षा की। इस समिक्षा के परिणाम ने पालास को तो संतुष्ट कर दिया पर नितू शमार किसी भी परिणाम तक ना पहुंच सका था।

मिसिज़ वेयज़े अपने दोनों तरफ़ लोगों की एक भीड़ के साथ बड़ी तेज़ी से वहां पहुंच गई थी और इस का चेहरा इस दृश् की बर्बरता से यकदम बहुत बूढ़ा हो चुका था। लोमड़ी की खाल का बना कोट खुला और जुलिया अपने पति वेयज़े की लाश के ऊपर गिर गई। रात के वस्त्र में लिपटा ये शरीर अब वेयज़े की मालिकी था और इस मुर्दा जोड़े के ऊपर पड़ा हुआ लोमड़ी की खाल का कोट किसी क़ब्र पर उगी घास की तरह वहां खड़ी भीड़ की मालिकी था।

शमार ने, जो अपनी पूरी कोशिश करते हुए मतली का मुक़ाबला करने में मसरूफ़ था, अपना मुँह-ज़ोर से बंद कर के एक पुलिस कर्मचारी के कंधे पर रखा हुआ था, जो मौक़ा-ए-वारदात से धीरे धीरे चलते हुए उसे अपने साथ ले जा रहा था।

जर्मन से उर्दू अनूवाद मक़बूल मलिक, उर्दू से हिन्दी अनूवाद मुहम्मद ज़ुबैर